دین و دنیا بھلا کے بیٹھے ہیں
دین و دنیا بھلا کے بیٹھے ہیں
رنگ ایسا چڑھا کے بیٹھے ہیں
عشق بھی مقصد حیات نہیں
عشق کو آزما کے بیٹھے ہیں
ایک شکوؤں بھرا کیا میسج
ایک پکچر جلا کے بیٹھے ہیں
پھر مروت میں جست بھر لی اور
پھر نئی چوٹ کھا کے بیٹھے ہیں
بات سے بات بن پڑے اپنی
بات آگے بڑھا کے بیٹھے ہیں
جو مرا ساتھ دینے نکلے تھے
اب وہی لڑکھڑا کے بیٹھے ہیں
ہم اسے یاد کر سکیں فر فر
اس لئے پاس آ کے بیٹھے ہیں