بچھڑنے کی سہولت مل نہ جائے
بچھڑنے کی سہولت مل نہ جائے
مکیں کو اذن ہجرت مل نہ جائے
میں کانپ اٹھتی ہوں اتنا سوچ کر ہی
کہ تو حسب ضرورت مل نہ جائے
ہتھیلی سے نہ مس ہو جائے ناول
فسانے سے حقیقت مل نہ جائے
بیابانوں سے جو گھبرا کے لوٹے
انہیں بستی میں وحشت مل نہ جائے
میں ورد سورۂ رحمان رکھوں
مجھے جب تک ہدایت مل نہ جائے
تواتر سے اگر ملتے رہے ہم
کہیں اپنی طبیعت مل نہ جائے
بڑی شدت سے جینا چاہتی تھی
مگر اب یہ اجازت مل نہ جائے