کمال ضبط کو یکسر بھی آزمانا نہیں
کمال ضبط کو یکسر بھی آزمانا نہیں
تباہ کیجیے چپ چاپ پر جتانا نہیں
تو شہر دل میں نیا ہے سو مشورہ سن لے
زیادہ گہرے مراسم یہاں بنانا نہیں
چلا گیا ہے مگر یہ سبق سکھا گیا ہے
ترس دوبارہ کسی دل زدہ پہ کھانا نہیں
کریدتے ہوئے قسمت کے بند تہہ خانے
لگے ہیں سانپ مرے ہاتھ پر خزانہ نہیں
اب اس مقام سے رستے جدا ہیں تیرے مرے
حوالے رب کے چلے جاؤ اور بھلانا نہیں
سپردگی تو بڑا مسئلہ نہیں لیکن
حریم ذات میں خود میرا آنا جانا نہیں
بچاؤ اس کو میاں وصل کی مشقت سے
یہ عشق اپنی طبیعت میں عامیانہ نہیں