عبث وجود کا دکھ تنگیٔ حیات کا دکھ

عبث وجود کا دکھ تنگیٔ حیات کا دکھ
کہ دل نے پالا ہوا ہے ہر ایک ذات کا دکھ


تلاش جنت و دوزخ میں رائیگاں انساں
زمیں پہ روز مناتا ہے کائنات کا دکھ


کئی جھمیلوں میں الجھی سی بد مزا چائے
اداس میز پہ دفتر کے کاغذات کا دکھ


گئے دنوں کا کوئی خواب دفن ہے شاید
کہ اب بھی آنکھ سے رستا ہے باقیات کا دکھ


میں آل سے ہوں شہہ کربلا کی سو مجھ کو
چناب سے بھی ملا ہے وہی فرات کا دکھ


نہ جانے مالک کن کس طرح نبھاتا ہے
یہ دسترس کی سہولت یہ ممکنات کا دکھ