Saib Asmi

صائب عاصمی

صائب عاصمی کی غزل

    کس کی صدا پہ کان لگائے ہوئے ہوں میں

    کس کی صدا پہ کان لگائے ہوئے ہوں میں زانو پہ اپنے سر کو جھکائے ہوئے ہوں میں وہ دن گئے کہ یاد تھی آٹھوں پہر تری اب اپنے آپ کو بھی بھلائے ہوئے ہوں میں رنگیں دکھائی دیتا ہے سارا جہاں مجھے آنکھوں میں ان کے جلوے بسائے ہوئے ہوں میں مانع ہے تیرے آنے میں اے مست ناز کیا ملنے کی کب سے آس ...

    مزید پڑھیے

    آج ان پر راز دل افشا کریں

    آج ان پر راز دل افشا کریں حسن کو مغرور و خود آرا کریں چند دن ان کو نہ اب دیکھا کریں یعنی کچھ ان کو بھی تڑپایا کریں اس طرح ہو یوں کریں ایسا کریں ان سے ملنے کا کوئی چارا کریں آپ تو جو کچھ کریں اچھا کریں ہم کہیں تو شکوۂ بے جا کریں موت بھی مانگے سے ملتی ہے کہاں پھر یہ کیوں کر ہو کہ وہ ...

    مزید پڑھیے

    کسی سے جب نہ اٹھا تو اٹھا بار گراں ہم سے

    کسی سے جب نہ اٹھا تو اٹھا بار گراں ہم سے ملا سکتے نہیں اب آنکھ ساتوں آسماں ہم سے ہنسا کر ایک دو دن عمر بھر آخر رلاتا ہے عجب اٹکھیلیاں کرتا ہے دور آسماں ہم سے ہمارا جب یہ ہونا بھی نہ ہونے کے برابر ہے تو آخر کیوں خفا بیٹھی ہے مرگ ناگہاں ہم سے ابھی پیش نظر تعمیر فردا کی ہیں ...

    مزید پڑھیے

    دل میں چراغ عشق نہ جو ضو فشاں رہے

    دل میں چراغ عشق نہ جو ضو فشاں رہے رعنائی خیال نہ حسن بیاں رہے شامل ہے اس میں میری تمنا کا خون بھی رنگیں تری ادا کی نہ کیوں داستاں رہے دل مٹ گیا کشاکش امید و بیم میں اب مہرباں ہو کوئی کہ نا مہرباں رہے اس رشک کا برا ہو جو دیکھا انہیں کبھی پہروں ہم اپنے آپ سے بھی بد گماں ...

    مزید پڑھیے

    لطف پیمان بار بار کہاں

    لطف پیمان بار بار کہاں لذت سوز انتظار کہاں کیا ہوئیں بے قراریاں دل کی وہ تمنائے وصل یار کہاں وہ تقاضائے شوق دید کجا روح کو اب وہ اضطرار کہاں جوش وحشت کے وہ مزے نہ رہے وہ گریبان تار تار کہاں مے کشی کی وہ بات جاتی رہی اب وہ محفل وہ مےگسار کہاں موت آ جائے تو غنیمت ہے ان کے آنے کا ...

    مزید پڑھیے

    جو شکایت غم زندگی کبھی لب پر اپنے نہ لا سکے

    جو شکایت غم زندگی کبھی لب پر اپنے نہ لا سکے وہ شب فراق کی داستاں بھلا کیا کسی کو سنا سکے کئی سر سے گزریں قیامتیں پڑیں ہم پہ لاکھ مصیبتیں دیں فلک نے کتنی اذیتیں تمہیں دل سے ہم نہ بھلا سکے تو وفا شناس ضرور ہے یہ تمام اپنا قصور ہے یہ عجب جنوں کا غرور ہے ترے آستاں پہ نہ جا سکے وہی ...

    مزید پڑھیے

    ہے مدرسہ یہی تو یہی خانقاہ ہے

    ہے مدرسہ یہی تو یہی خانقاہ ہے انساں کا دل ہی ایک بڑی درس گاہ ہے رسوا نہ کر دے مجھ کو یہ انداز خامشی ان کے سوا ہر ایک کی مجھ پر نگاہ ہے شرمائے بھی وہ اپنے ستم پر تو کیا ہوا شرم و حیا سے ہم پہ کب ان کی نگاہ ہے جو پیار کی نہیں نہ سہی قہر کی سہی چارہ مرے مرض کا تری اک نگاہ ہے اس نے نقاب ...

    مزید پڑھیے

    اے دل ناداں یہ جذب عشق ہے (ردیف .. ا)

    اے دل ناداں یہ جذب عشق ہے دیکھ بیتابانہ وہ کون آ گیا لوٹتے ہم کیا جوانی کی بہار غنچۂ دل کھلتے ہی مرجھا گیا عقل و ہوش و صبر و آرام و قرار ایک جانے سے ترے کیا کیا گیا زندگی گزرے گی کس امید پر انتظار وعدۂ فردا گیا دل کو میں بہلا رہا ہوں اس طرح آ رہا ہے آئے گا وہ آ گیا عشق میں آیا ہے ...

    مزید پڑھیے

    ان کے آتے ہی میں ہو جاتا ہوں بے خود اتنا (ردیف .. ے)

    ان کے آتے ہی میں ہو جاتا ہوں بے خود اتنا وہ چلے جاتے ہیں پہلو سے تو ہوش آتا ہے عشق ہے عشق کوئی کھیل تماشا تو نہیں جیتے جی دل سے خیال ان کا کہاں جاتا ہے در و دیوار یہ کہتے ہوئے آتے ہیں نظر وہ ابھی آئے گا دیکھو وہ چلا آتا ہے لالہ و گل ہیں چمن میں کہ کھلے جاتے ہیں غنچۂ دل ہے مرا ایک کہ ...

    مزید پڑھیے

    دم صبح پی لی سر شام پی لی

    دم صبح پی لی سر شام پی لی اگر مل گئی ایک دو جام پی لی نہ آغاز سوچا نہ انجام پی لی رکھا ہم نے پینے سے بس کام پی لی میں اے شیخ انسان ہی تو ہوں آخر گھٹاؤں نے پھیلا دئے دام پی لی زمانے کی بے رحم گردش کے ہاتھوں نہ پایا جہاں میں جو آرام پی لی کبھی ہم نے ساغر پہ ساغر لنڈھائے کبھی ہم نے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2