سعید افسر کی غزل

    گرم رکھے ہے ابھی تک بھی رخ یار کی آنچ

    گرم رکھے ہے ابھی تک بھی رخ یار کی آنچ وہ دہکتی ہوئی صورت لب و رخسار کی آنچ پیٹ کی آگ ہی کیا کم تھی جلانے کے لئے گھر کے گھر راکھ کئے دیتی ہے بازار کی آنچ پہلے آتی تھی صبا لے کے گلوں کی خوشبو اب تو صحرا کو جلا دیتی ہے گلزار کی آنچ گرم جوشی کے بھلاوے میں اگر آ بھی گئے ٹھہرنے ہی نہیں ...

    مزید پڑھیے

    وہی ہم ہیں وہی لاچاریاں ہیں

    وہی ہم ہیں وہی لاچاریاں ہیں وہی یاروں کی دنیا داریاں ہیں وہ سوکھی آنکھ سے رونا بلکنا عزا داری میں بھی فن کاریاں ہیں کہاں تک تم علاج اس کا کرو گے کہ اس دل کو کئی بیماریاں ہیں نصیب اپنا لکھا ہے آسماں پر زمیں پر صرف ذمہ داریاں ہیں صبا سرگوشیوں میں کہہ رہی ہے یہاں سے کوچ کی ...

    مزید پڑھیے

    جینے پہ جو اکسائے وہ الجھن بھی نہیں ہے

    جینے پہ جو اکسائے وہ الجھن بھی نہیں ہے اس شہر میں میرا کوئی دشمن بھی نہیں ہے سوکھے ہوئے کچھ پھول نہ پگھلی ہوئی شمعیں اللہ وہ صحرا کہ جو مدفن بھی نہیں ہے ہمسائے کی صورت کوئی دیکھے بھی تو کیوں کر دیوار وہ حائل ہے کہ روزن بھی نہیں ہے اب اپنا جنازہ لئے بازار میں گھومو جاؤ گے کہاں ...

    مزید پڑھیے

    ہے آگے ایک بیابان اس ببول کے بعد

    ہے آگے ایک بیابان اس ببول کے بعد ہمارا کوئی نہیں ہے دل ملول کے بعد نہ جانے خود کو کہاں چھوڑ آیا رستے میں مجھے تلاش ہے اپنی ترے حصول کے بعد سفر حیات کا کب ختم ہونے والا ہے کہ جب زمیں نہ ہوئی ختم عرض و طول کے بعد تمہاری ذات ہی کیا قوس میں گھرے ہندسو نہ کچھ اصول سے پہلے نہ کچھ اصول ...

    مزید پڑھیے

    شعلۂ گل سے رنگ شفق تک عارض و لب کی بات گئی

    شعلۂ گل سے رنگ شفق تک عارض و لب کی بات گئی چھڑ گیا جب بھی تیرا قصہ ختم ہوا دن رات گئی سوکھے ہونٹ تو بوند کو ترسے مینا خالی جام تہی لیکن پھر بھی چند لبوں تک ساقی کی سوغات گئی سرگوشی میں بات جو کی تھی کیا تھی ہم خود بھول گئے لیکن ایک فسانہ بن کر دنیا تک وہ بات گئی یادوں کے زہریلے ...

    مزید پڑھیے

    آدمی ارتقا کی غار میں تھا

    آدمی ارتقا کی غار میں تھا پھر خدا تھا تو کس قطار میں تھا عقل ہی لائی اس کی چوکھٹ تک دل کہاں اپنے اختیار میں تھا نیکیاں راستے میں بکھری تھیں علم تسبیح کے حصار میں تھا جمع تفریق کے سوالوں سے طالب علم انتشار میں تھا راستے پر تو آ چلا تھا مگر آدمی درجۂ غبار میں تھا طے ہوئے فاصلے ...

    مزید پڑھیے

    غزل غالبؔ نہ تنہا میرؔ سے ہے

    غزل غالبؔ نہ تنہا میرؔ سے ہے جڑی صد حلقۂ زنجیر سے ہے مقدر ہو چکی تھی موت لیکن یہ دل زندہ کسی تدبیر سے ہے میں منظر اور نہ پس منظر کو دیکھوں مجھے مطلب تری تصویر سے ہے گرے ہوتے مرے آنسو تو روتا کہ تیرا غم مری تقدیر سے ہے میں بیٹھا ہوں دعا سے ہاتھ اٹھائے ندامت اس قدر تقصیر سے ...

    مزید پڑھیے

    دھوپ کو گرم نہ کہہ سایۂ دیوار نہ دیکھ

    دھوپ کو گرم نہ کہہ سایۂ دیوار نہ دیکھ تجھ کو چلنا ہے تو پھر وقت کی رفتار نہ دیکھ میری فکروں سے الجھ مجھ کو سمجھنے کے لئے دور سے موج میں الجھی ہوئی پتوار نہ دیکھ ان کی روحوں کو پرکھ آدمی ہیں بھی یا نہیں صرف صورت پہ نہ جا جبہ و دستار نہ دیکھ اپنے آنگن ہی میں کر فکر نموئے گلشن کوئی ...

    مزید پڑھیے

    اندھیرے گھر کی روایات توڑ جانا ہے

    اندھیرے گھر کی روایات توڑ جانا ہے ہمیں چراغ اجالے میں چھوڑ جانا ہے نہیں ہے مصرف جان اور کچھ مگر یہ ہے تمام عالم امکاں جھنجھوڑ جانا ہے وہیں سے ترک تعلق کی راہ نکلی ہے جہاں سے تم نے محبت کا موڑ جانا ہے ہے خواہشات سے چھٹنا اتر تو یوں سمجھو کہ بس حصار ہوا ہی تو توڑ جانا ہے ہماری ...

    مزید پڑھیے

    کشاکش غم لیل و نہار سے نکلیں

    کشاکش غم لیل و نہار سے نکلیں ہو ختم عمر تو اس کرب زار سے نکلیں طلسم خود نگری توڑ کر تو باہر آ تو ہم بھی اپنی انا کے حصار سے نکلیں ہمارے عکس میں دھندلاہٹیں ہیں ماضی کی غبار دل کا چھٹے تو غبار سے نکلیں وہاں بھی سخت مسائل کا سامنا ہوگا تو کس امید پہ اس ریگزار سے نکلیں ہم اپنی حد سے ...

    مزید پڑھیے