گرم رکھے ہے ابھی تک بھی رخ یار کی آنچ
گرم رکھے ہے ابھی تک بھی رخ یار کی آنچ
وہ دہکتی ہوئی صورت لب و رخسار کی آنچ
پیٹ کی آگ ہی کیا کم تھی جلانے کے لئے
گھر کے گھر راکھ کئے دیتی ہے بازار کی آنچ
پہلے آتی تھی صبا لے کے گلوں کی خوشبو
اب تو صحرا کو جلا دیتی ہے گلزار کی آنچ
گرم جوشی کے بھلاوے میں اگر آ بھی گئے
ٹھہرنے ہی نہیں دے گی کسی دیوار کی آنچ
وقت سے بھی نہ بجھی ہے یہ وہ آتش غالبؔ
روح کو آج بھی گرمائے ہے اشعار کی آنچ
شہر جل جاتے ہیں اس آنچ میں دھیمے دھیمے
اور محسوس نہیں ہوتی ہے اخبار کی آنچ
یہ جو احساس ہے دوری کو مٹا دیتا ہے
ہم کو اس پار لگا کرتی ہے اس پار کی آنچ