وہی ہم ہیں وہی لاچاریاں ہیں

وہی ہم ہیں وہی لاچاریاں ہیں
وہی یاروں کی دنیا داریاں ہیں


وہ سوکھی آنکھ سے رونا بلکنا
عزا داری میں بھی فن کاریاں ہیں


کہاں تک تم علاج اس کا کرو گے
کہ اس دل کو کئی بیماریاں ہیں


نصیب اپنا لکھا ہے آسماں پر
زمیں پر صرف ذمہ داریاں ہیں


صبا سرگوشیوں میں کہہ رہی ہے
یہاں سے کوچ کی تیاریاں ہیں


نہیں کچھ فرق گل رت ہو یا پت جھڑ
طبیعت کی جدا گلکاریاں ہیں


جگر پتھر کا رکھتا ہے سخنور
چٹانوں سی یہاں تہہ داریاں ہیں


متاع غم چھپائیں کیوں نہ افسرؔ
شریفوں کی یہی زر داریاں ہیں