غزل غالبؔ نہ تنہا میرؔ سے ہے
غزل غالبؔ نہ تنہا میرؔ سے ہے
جڑی صد حلقۂ زنجیر سے ہے
مقدر ہو چکی تھی موت لیکن
یہ دل زندہ کسی تدبیر سے ہے
میں منظر اور نہ پس منظر کو دیکھوں
مجھے مطلب تری تصویر سے ہے
گرے ہوتے مرے آنسو تو روتا
کہ تیرا غم مری تقدیر سے ہے
میں بیٹھا ہوں دعا سے ہاتھ اٹھائے
ندامت اس قدر تقصیر سے ہے
فقط دنیا اسے سمجھوں کہ مانوں
تری منشا مری تشہیر سے ہے
میں خود سایہ ہوں افسرؔ اپنے قد کا
مرا قامت مری تحریر سے ہے