رستم نامی کی غزل

    جشن گریہ کے علاوہ بھی تماشا ہو تو

    جشن گریہ کے علاوہ بھی تماشا ہو تو اب علاوہ کے علاوہ بھی تماشا ہو تو کاش اب کے نہ کسی شے کی طلب ہم کو رہے اب تمنا کے علاوہ بھی تماشا ہو تو مہلت محفل خوش رنگ پس زنداں ہو حبس بے جا کے علاوہ بھی تماشا ہو تو اب تو یہ رونق یک منظری کھلتی ہے بہت اب کہیں جا کے علاوہ بھی تماشا ہو تو یعنی ...

    مزید پڑھیے

    کہ تیرے شہر سے آتی سڑک سے منسلک ہیں

    کہ تیرے شہر سے آتی سڑک سے منسلک ہیں مری خوشیاں ترے غم کی کمک سے منسلک ہیں ہماری بات میں کچھ وزن ہو تو کس طرح ہو کہ ہم تو غیر کے نان و نمک سے منسلک ہیں اسے دیکھوں تو پھر مجھ کو دکھائی دے ذرا کچھ مری آنکھیں ان آنکھوں کی چمک سے منسلک ہیں ترے ماضی سے تو گہرا تعلق ہے ہمارا ستم یہ ہے کہ ...

    مزید پڑھیے

    ارض و سما فریب نہ یہ بحر و بر فریب

    ارض و سما فریب نہ یہ بحر و بر فریب ہے اصل میں یہ سارا فریب نظر فریب پہلے سے ہم گزیدۂ احباب ہیں بہت اس پر یہ مستزاد ہو تو بھی اگر فریب کس کس کو روئیں کوچۂ بے اعتبار میں چارا فریب ہے تو کبھی چارہ گر فریب باندھا تھا جو بھی گھر سے وہ زنبیل میں نہیں آخر کو دے گیا ہمیں زاد سفر ...

    مزید پڑھیے

    زمین کم ہے یہاں آسمان تھوڑا ہے

    زمین کم ہے یہاں آسمان تھوڑا ہے توقعات سے تیرا جہان تھوڑا ہے بس اک ہمارے ہی سر پر ہے اس کا دست ستم ہر ایک شخص پہ وہ مہربان تھوڑا کچھ اور لوگ بھی ہیں میرے خیر خواہوں میں فقط تجھی سے یہ دل بد گمان تھوڑا ہے لگائے رکھا ہے بس میں نے یوں ہی جی ورنہ ترا جہاں مرے شایان شان تھوڑا ہے ہے ...

    مزید پڑھیے

    سہولت کم پریشانی بہت ہے

    سہولت کم پریشانی بہت ہے محبت میں یہ آسانی بہت ہے بہت لگتی ہے دل کو اس لیے بھی تمہاری بات لا یعنی بہت ہے اسے خطرہ ہے پیاسا دامن دل ہماری آنکھ میں پانی بہت ہے یہیں کر لیتے ہیں صحرا نوردی ہمارے گھر میں ویرانی بہت ہے یہ منظر ہی کچھ ایسا ہے کہ یا پھر مری آنکھوں میں عریانی بہت ...

    مزید پڑھیے

    کہاں ہے زندگی بس میں ہمارے

    کہاں ہے زندگی بس میں ہمارے ہے بس یہ بے بسی بس میں ہمارے ہمارا زور چلتا ہے اسی پر کہ ہے یہ شاعری بس میں ہمارے اگر اک چیز پر قابو ہے اپنا نہیں پھر دوسری بس میں ہمارے ہمارے واسطے یہ بھی بہت ہے جو ہے تیری کمی بس میں ہمارے اسے تا عمر ہم روکیں جو آئے کبھی وہ سرسری بس میں ہمارے لبھا ...

    مزید پڑھیے

    پس دیوار ممکن ہے

    پس دیوار ممکن ہے اگرچہ پیار ممکن ہے کہیں ہے کار آمد اور کہیں بے کار ممکن ہے یہاں ممکن نہیں ہے جو سمندر پار ممکن ہے نبھاؤں گا میں یک طرفہ جہاں تک یار ممکن ہے ترے دم سے یہاں سب کچھ مری سرکار ممکن ہے نہیں ہے فائدہ اس میں جو کاروبار ممکن ہے محبت کیا ہوس بھی اب سر بازار ممکن ...

    مزید پڑھیے

    پرانے ہو گئے گھر بیٹھے بیٹھے

    پرانے ہو گئے گھر بیٹھے بیٹھے مرے دیوار اور در بیٹھے بیٹھے ہمارے جسم کا حصہ بنا ہے ہمارے ذہن میں ڈر بیٹھے بیٹھے پڑی ہے ایسی عادت ٹھوکروں کی ہمیں لگتی ہے ٹھوکر بیٹھے بیٹھے میں رہتا ہوں مسافت میں ہمیشہ سفر کرتا ہوں اکثر بیٹھے بیٹھے چلی جاتی ہے پھر اٹھ کر اچانک خوشی میرے برابر ...

    مزید پڑھیے

    ایسے وہ مرے شہر کی تقدیر سے کھیلے

    ایسے وہ مرے شہر کی تقدیر سے کھیلے جیسے کوئی بچہ کسی تصویر سے کھیلے رہنا ہے اسے اور بھی کچھ روز قفس میں قیدی سے کہو صبر کی زنجیر سے کھیلے اترا ہے مرے ذہن سے پیکر ترا لیکن دل اب بھی ترے لمس کی تاثیر سے کھیلے ممکن تھا محبت میں ہمیں مات نہ ہوتی یہ کھیل مگر ہم بڑی تاخیر سے کھیلے یہ ...

    مزید پڑھیے

    فلاں سے کام چلتا ہے فلاں سے کام چلتا ہے

    فلاں سے کام چلتا ہے فلاں سے کام چلتا ہے چلائیں وہ جہاں سے بھی وہاں سے کام چلتا ہے کبھی بھولے سے کر لیتے ہیں ان کا تذکرہ ہم بھی کبھی اپنا بھی یاد رفتگاں سے کام چلتا ہے تمہاری شاعری جیسی بھی ہے جو کچھ بھی ہے لیکن تمہارا صرف انداز بیاں سے کام چلتا ہے تلاوت اور تسبیحات سے آغاز کرتے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2