ایسے وہ مرے شہر کی تقدیر سے کھیلے
ایسے وہ مرے شہر کی تقدیر سے کھیلے
جیسے کوئی بچہ کسی تصویر سے کھیلے
رہنا ہے اسے اور بھی کچھ روز قفس میں
قیدی سے کہو صبر کی زنجیر سے کھیلے
اترا ہے مرے ذہن سے پیکر ترا لیکن
دل اب بھی ترے لمس کی تاثیر سے کھیلے
ممکن تھا محبت میں ہمیں مات نہ ہوتی
یہ کھیل مگر ہم بڑی تاخیر سے کھیلے
یہ زیست کی بازی نہ ترے ہاتھ رہے گی
تو لاکھ اسے غور سے تدبیر سے کھیلے