ارض و سما فریب نہ یہ بحر و بر فریب
ارض و سما فریب نہ یہ بحر و بر فریب
ہے اصل میں یہ سارا فریب نظر فریب
پہلے سے ہم گزیدۂ احباب ہیں بہت
اس پر یہ مستزاد ہو تو بھی اگر فریب
کس کس کو روئیں کوچۂ بے اعتبار میں
چارا فریب ہے تو کبھی چارہ گر فریب
باندھا تھا جو بھی گھر سے وہ زنبیل میں نہیں
آخر کو دے گیا ہمیں زاد سفر فریب
باتیں ہماری اور تو سب ٹھیک ہیں مگر
ہیں ان کے درمیاں یہ اگر اور مگر فریب
ہوتے ہیں آدمی سے یہ مانوس بھی بہت
دیتے ہیں ایک دن یہی دیوار و در فریب
کیا کچھ نہیں فریب جہان فریب میں
یہ میرا عجز اور ترا کر و فر فریب
نامیؔ یہ سب فریب فریب فریب ہے
نامیؔ ادھر فریب ہے نامیؔ ادھر فریب