پرانے ہو گئے گھر بیٹھے بیٹھے

پرانے ہو گئے گھر بیٹھے بیٹھے
مرے دیوار اور در بیٹھے بیٹھے


ہمارے جسم کا حصہ بنا ہے
ہمارے ذہن میں ڈر بیٹھے بیٹھے


پڑی ہے ایسی عادت ٹھوکروں کی
ہمیں لگتی ہے ٹھوکر بیٹھے بیٹھے


میں رہتا ہوں مسافت میں ہمیشہ
سفر کرتا ہوں اکثر بیٹھے بیٹھے


چلی جاتی ہے پھر اٹھ کر اچانک
خوشی میرے برابر بیٹھے بیٹھے


مبادا بھول ہی جاؤں میں پرواز
ہلاتا رہتا ہوں پر بیٹھے بیٹھے


بہت ہی مشتعل ہونے لگا ہے
مرے اندر سمندر بیٹھے بیٹھے


نہیں کچھ فکر کرنے کی ضرورت
چمکتا ہے مقدر بیٹھے بیٹھے


پلٹتا رہتا ہوں یادوں کے اوراق
میں نامیؔ روز دفتر بیٹھے بیٹھے