رستم نامی کی غزل

    اے ستم گار اے ہوا صورت

    اے ستم گار اے ہوا صورت گاہے گاہے ہمیں دکھا صورت کوئی صورت نہیں ہے اب ممکن ہے یہی ایک ممکنہ صورت جان میں جان آئی مدت بعد جب نظر آئی آشنا صورت گفتگو غیر سے رہی اس کی میں فقط دیکھتا رہا صورت ذہن و دل میں سمائے گی کیسے یہ تصور سے ماورا صورت پارکوں میں دکھائی دیتی ہے ایک سے ایک دل ...

    مزید پڑھیے

    کرنا نہ تھا جو کام زیادہ کیا گیا

    کرنا نہ تھا جو کام زیادہ کیا گیا جذبات کو لگام زیادہ کیا گیا انسان کے مقام پہ رکھا گیا ہمیں یعنی ہمیں غلام زیادہ کیا گیا پہلے تو کوئی کام سرے سے ہوا نہیں پھر اس کا اختتام زیادہ کیا گیا باقی تو ٹھیک ٹھاک تھے حالات شہر میں تھوڑا سا قتل عام زیادہ کیا گیا کوشش کے باوجود کہیں مل ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2