مصائب میں پیہم سفر کر رہی ہوں
مصائب میں پیہم سفر کر رہی ہوں کہ میں جینے کے واسطے مر رہی ہوں
مصائب میں پیہم سفر کر رہی ہوں کہ میں جینے کے واسطے مر رہی ہوں
کہ پھر پیدا مری خاطر کوئی مشکل نہ ہو جائے پریشاں ہوں یہ میرا دل کہیں بزدل نہ ہو جائے بھنور میں میری کشتی کو یہی احساس رہتا ہے ڈبونے میں مرا یہ ناخدا شامل نہ ہو جائے اسی اک خوف سے میں اپنی پلکیں تک نہیں جھپکوں کہ اس کا چہرہ آنکھوں سے میری اوجھل نہ ہو جائے مجھے اس بات کی ہر لمحہ ...
اپنی ہی راہوں کا پتھر ہو گئے ہم بھی کیا اہل مقدر ہو گئے ہم نہیں بن پائے ہرگز آفتاب ڈوبتے تاروں کا منظر ہو گئے لوٹ پائیں گے کسی صورت نہ وہ اپنے گھر سے ہی جو بے گھر ہو گئے بک رہے تھے مصر کے بازار میں ہم مگر سستے میسر ہو گئے زندگی لے آئی یہ کس موڑ پر ہم سراسر غم کا پیکر ہو گئے
وہ جو دیکھے تھے میں نے کبھی خواب میں بہہ گئے پھول سارے وہ سیلاب میں نا خدا کی جو نیت تھی ظاہر ہوئی جب بھی کشتی مری آئی گرداب میں راز اب تک کسی پہ نہ یہ کھل سکا مر گئیں مچھلیاں کیسے تالاب میں جتنے بھی زخم تھے خود بہ خود بھر گئے جب سے دیکھا ہے اک داغ مہتاب میں ایک مدت سے ہم ان سے ...
آنکھیں کھلی ہیں خواب مگر دیکھ رہی ہوں تا حد نظر غم کی ڈگر دیکھ رہی ہوں لاچار ہوں بے بس ہوں مگر دیکھ رہی ہوں لٹتے ہوئے اپنا یہ نگر دیکھ رہی ہوں اس دھوپ کی شدت میں کہاں سایہ ملے گا گرتے ہوئے میں سارے شجر دیکھ رہی ہوں وہ جن کے لہو رنگ سے یہ شہر سجا ہے گھر ان کے ہوئے زیر و زبر دیکھ ...
زمانے پہ گہری نظر کرتے کرتے میں تھک بھی چکی ہوں سفر کرتے کرتے بہت دیر کر دی مرے مہرباں نے عنایت کی مجھ پہ نظر کرتے کرتے کئی مشکلیں آئیں گی راستے میں یہ قاصد کو میری خبر کرتے کرتے دعائیں مری کارگر ہوں گی آخر مگر چاہیے وقت اثر کرتے کرتے ذرا سوچ لینا روبینہؔ یہ دل میں طبیعت کو ...
میری ہر بات پر وہ خفا سا لگے صاف گوئی کا اس کو برا سا لگے سانس لیتے ہیں ہم کیسے ماحول میں جو بھی منظر ہے وہ کربلا سا لگے کس نے موسم کو سکھلائی ایسی ادا کبھی خوش اور کبھی یہ خفا سا لگے جس کی نس نس میں شامل ہیں کڑواہٹیں وہ ہی درد کی کیوں دوا سا لگے جب بھی ملتا ہے خاموش رہتا ہے وہ اس ...
بے رخی ہی بے رخی ہے ہر طرف بکھری بکھری زندگی ہے ہر طرف دشمنی ہی دشمنی ہے ہر طرف آگ نفرت کی لگی ہے ہر طرف کس نے یہ جینا اجیرن کر دیا خوف دہشت سنسنی ہے ہر طرف کوئی شے بھی اب نہیں ہے مشرقی رنگ سب کا مغربی ہے ہر طرف بات جو دل میں ہے کہہ سکتے نہیں کیسی اپنی بے بسی ہے ہر طرف آدمی میں ...
راستہ ہوگا جب تک نہ ہموار سا ہر سفر ہوگا پھر اس پہ دشوار سا یہ خلوص و محبت کی زنجیر تھی جس نے کر ڈالا اس کو گرفتار سا اس کا چہرہ لکیروں میں بٹ سا گیا اپنی خاطر بنا ہے وہ آزار سا اس زباں سے اسے کچھ نہ کہنا مگر لفظ تحریر میں رکھنا تلوار سا کیا روبینہؔ ترے ہاتھ تھکتے نہیں لکھتے ...
وہ وفا تھی یا جفا اچھی لگی ہم کو تیری ہر ادا اچھی لگی ہم یہ سمجھے تھے بھلا بیٹھے ہیں وہ آپ نے جو دی صدا اچھی لگی جس میں غم بھی تھے نہاں کچھ درد بھی ہم کو وہ آب و ہوا اچھی لگی