آنکھیں کھلی ہیں خواب مگر دیکھ رہی ہوں
آنکھیں کھلی ہیں خواب مگر دیکھ رہی ہوں
تا حد نظر غم کی ڈگر دیکھ رہی ہوں
لاچار ہوں بے بس ہوں مگر دیکھ رہی ہوں
لٹتے ہوئے اپنا یہ نگر دیکھ رہی ہوں
اس دھوپ کی شدت میں کہاں سایہ ملے گا
گرتے ہوئے میں سارے شجر دیکھ رہی ہوں
وہ جن کے لہو رنگ سے یہ شہر سجا ہے
گھر ان کے ہوئے زیر و زبر دیکھ رہی ہوں
دریا نے ہے رخ بدلا بہائے گا یہ کس کو
خاموش کھڑی اس کا سفر دیکھ رہی ہوں
اک روز کی یہ بات نہیں میری روبینہؔ
صدیوں سے میں اجڑا ہوا گھر دیکھ رہی ہوں