کہ پھر پیدا مری خاطر کوئی مشکل نہ ہو جائے

کہ پھر پیدا مری خاطر کوئی مشکل نہ ہو جائے
پریشاں ہوں یہ میرا دل کہیں بزدل نہ ہو جائے


بھنور میں میری کشتی کو یہی احساس رہتا ہے
ڈبونے میں مرا یہ ناخدا شامل نہ ہو جائے


اسی اک خوف سے میں اپنی پلکیں تک نہیں جھپکوں
کہ اس کا چہرہ آنکھوں سے میری اوجھل نہ ہو جائے


مجھے اس بات کی ہر لمحہ اتنی فکر رہتی ہے
کہ اس کی یاد سے میرا یہ دل غافل نہ ہو جائے


کبھی اس کی جفاؤں کی شکایت کرنا بھی چاہوں
مگر پھر سوچتی ہوں وہ کہیں بد دل نہ ہو جائے


بھلا تھک ہار کر بیٹھوں روبینہؔ تو کہاں بیٹھوں
جسے میں چھوڑنا چاہوں مری منزل نہ ہو جائے