Robeena Meer

روبینہ میر

روبینہ میر کی غزل

    کہ پھر پیدا مری خاطر کوئی مشکل نہ ہو جائے

    کہ پھر پیدا مری خاطر کوئی مشکل نہ ہو جائے پریشاں ہوں یہ میرا دل کہیں بزدل نہ ہو جائے بھنور میں میری کشتی کو یہی احساس رہتا ہے ڈبونے میں مرا یہ ناخدا شامل نہ ہو جائے اسی اک خوف سے میں اپنی پلکیں تک نہیں جھپکوں کہ اس کا چہرہ آنکھوں سے میری اوجھل نہ ہو جائے مجھے اس بات کی ہر لمحہ ...

    مزید پڑھیے

    اپنی ہی راہوں کا پتھر ہو گئے

    اپنی ہی راہوں کا پتھر ہو گئے ہم بھی کیا اہل مقدر ہو گئے ہم نہیں بن پائے ہرگز آفتاب ڈوبتے تاروں کا منظر ہو گئے لوٹ پائیں گے کسی صورت نہ وہ اپنے گھر سے ہی جو بے گھر ہو گئے بک رہے تھے مصر کے بازار میں ہم مگر سستے میسر ہو گئے زندگی لے آئی یہ کس موڑ پر ہم سراسر غم کا پیکر ہو گئے

    مزید پڑھیے

    وہ جو دیکھے تھے میں نے کبھی خواب میں

    وہ جو دیکھے تھے میں نے کبھی خواب میں بہہ گئے پھول سارے وہ سیلاب میں نا خدا کی جو نیت تھی ظاہر ہوئی جب بھی کشتی مری آئی گرداب میں راز اب تک کسی پہ نہ یہ کھل سکا مر گئیں مچھلیاں کیسے تالاب میں جتنے بھی زخم تھے خود بہ خود بھر گئے جب سے دیکھا ہے اک داغ مہتاب میں ایک مدت سے ہم ان سے ...

    مزید پڑھیے

    آنکھیں کھلی ہیں خواب مگر دیکھ رہی ہوں

    آنکھیں کھلی ہیں خواب مگر دیکھ رہی ہوں تا حد نظر غم کی ڈگر دیکھ رہی ہوں لاچار ہوں بے بس ہوں مگر دیکھ رہی ہوں لٹتے ہوئے اپنا یہ نگر دیکھ رہی ہوں اس دھوپ کی شدت میں کہاں سایہ ملے گا گرتے ہوئے میں سارے شجر دیکھ رہی ہوں وہ جن کے لہو رنگ سے یہ شہر سجا ہے گھر ان کے ہوئے زیر و زبر دیکھ ...

    مزید پڑھیے

    زمانے پہ گہری نظر کرتے کرتے

    زمانے پہ گہری نظر کرتے کرتے میں تھک بھی چکی ہوں سفر کرتے کرتے بہت دیر کر دی مرے مہرباں نے عنایت کی مجھ پہ نظر کرتے کرتے کئی مشکلیں آئیں گی راستے میں یہ قاصد کو میری خبر کرتے کرتے دعائیں مری کارگر ہوں گی آخر مگر چاہیے وقت اثر کرتے کرتے ذرا سوچ لینا روبینہؔ یہ دل میں طبیعت کو ...

    مزید پڑھیے

    میری ہر بات پر وہ خفا سا لگے

    میری ہر بات پر وہ خفا سا لگے صاف گوئی کا اس کو برا سا لگے سانس لیتے ہیں ہم کیسے ماحول میں جو بھی منظر ہے وہ کربلا سا لگے کس نے موسم کو سکھلائی ایسی ادا کبھی خوش اور کبھی یہ خفا سا لگے جس کی نس نس میں شامل ہیں کڑواہٹیں وہ ہی درد کی کیوں دوا سا لگے جب بھی ملتا ہے خاموش رہتا ہے وہ اس ...

    مزید پڑھیے

    بے رخی ہی بے رخی ہے ہر طرف

    بے رخی ہی بے رخی ہے ہر طرف بکھری بکھری زندگی ہے ہر طرف دشمنی ہی دشمنی ہے ہر طرف آگ نفرت کی لگی ہے ہر طرف کس نے یہ جینا اجیرن کر دیا خوف دہشت سنسنی ہے ہر طرف کوئی شے بھی اب نہیں ہے مشرقی رنگ سب کا مغربی ہے ہر طرف بات جو دل میں ہے کہہ سکتے نہیں کیسی اپنی بے بسی ہے ہر طرف آدمی میں ...

    مزید پڑھیے

    راستہ ہوگا جب تک نہ ہموار سا

    راستہ ہوگا جب تک نہ ہموار سا ہر سفر ہوگا پھر اس پہ دشوار سا یہ خلوص و محبت کی زنجیر تھی جس نے کر ڈالا اس کو گرفتار سا اس کا چہرہ لکیروں میں بٹ سا گیا اپنی خاطر بنا ہے وہ آزار سا اس زباں سے اسے کچھ نہ کہنا مگر لفظ تحریر میں رکھنا تلوار سا کیا روبینہؔ ترے ہاتھ تھکتے نہیں لکھتے ...

    مزید پڑھیے

    وہ وفا تھی یا جفا اچھی لگی

    وہ وفا تھی یا جفا اچھی لگی ہم کو تیری ہر ادا اچھی لگی ہم یہ سمجھے تھے بھلا بیٹھے ہیں وہ آپ نے جو دی صدا اچھی لگی جس میں غم بھی تھے نہاں کچھ درد بھی ہم کو وہ آب و ہوا اچھی لگی

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2