میری ہر بات پر وہ خفا سا لگے

میری ہر بات پر وہ خفا سا لگے
صاف گوئی کا اس کو برا سا لگے


سانس لیتے ہیں ہم کیسے ماحول میں
جو بھی منظر ہے وہ کربلا سا لگے


کس نے موسم کو سکھلائی ایسی ادا
کبھی خوش اور کبھی یہ خفا سا لگے


جس کی نس نس میں شامل ہیں کڑواہٹیں
وہ ہی درد کی کیوں دوا سا لگے


جب بھی ملتا ہے خاموش رہتا ہے وہ
اس کی آنکھوں میں لیکن گلہ سا لگے