Robeena Meer

روبینہ میر

روبینہ میر کی نظم

    بے یقینی

    برسات کی تیز بارش سے کچھ مکانوں کو گرتے دیکھ کر فکر لاحق ہو گئی اپنے گھر کی آئے دن زلزلوں کے جھٹکوں سے جگہ جگہ دراڑیں پڑ چکی ہیں چھت بھی ٹپکے جا رہی ہے ستون بھلا کب تک سہارا دے سکتے ہیں ان گھروں کو جو گھر بنیاد سے ہی ہل گئے ہوں

    مزید پڑھیے

    جموں کشمیر بھارت

    مرے اندر نہاں تم ہو مرے دل ہو کہ جاں تم ہو کہ میرے رازداں تم ہو مگر اندھیر مت کرنا کبھی تم دیر مت کرنا مری قسمت تمہیں تو ہو مری الفت تمہیں تو ہو مری چاہت تمہیں تو ہو مری عزت تمہیں تو ہو مری طاقت تمہیں تو ہو مری ہمت تمہیں تو ہو مجھے تم زیر مت کرنا کبھی تم دیر مت کرنا محبت کے گلستاں ...

    مزید پڑھیے

    کبھی تم دیر مت کرنا

    میں روٹھوں تو منانے میں مجھے واپس بلانے میں چراغ دل جلانے میں اندھیروں کو مٹانے میں دیار دل بسانے میں کہ میرے پاس آنے میں کبھی تم دیر مت کرنا یقیں کی داستاں تم ہو کہ مثل کہکشاں تم ہو میں دل ہوں تو زباں تم ہو

    مزید پڑھیے

    لوٹ آ

    دھیرے دھیرے یخ بستہ کشمیری سرد ہوائیں سفید برفیلی چٹانوں سے ٹکرا کے اپنے وجود کو گھاٹی میں مدغم کرتی شور مچاتی چوٹی پہ منقش میرے بنگلے سے لپٹ جاتیں شفاف برف پوش ہو گئی تھی راستے کی ہر لکیر ایسے میں وہ دیکھنے آیا تھا برفیلا کشمیر طویل مسافت طے کرنے کے بعد اس نے سن رکھا تھا بہت ...

    مزید پڑھیے

    خواب

    ٹوٹ جاتے ہیں جب تو کہاں جڑ پاتے ہیں کانچ کے کھلونوں کی طرح نازک ہوتے ہیں یہ خواب

    مزید پڑھیے

    عورت

    عورت کو سمجھو نہ جاگیر اپنی نہ یہ خواب اپنا نہ تعبیر اپنی الجھتی ہے خود سے یہ لاچار ہو کر ہر اک بات سمجھے یہ تقصیر اپنی یہ کرتی ہے ہر اک ستم کو گوارا بناتی ہے ایسے یہ تقدیر اپنی ستائے گا اس کو بتا کیا زمانہ سناں جس کی اپنی ہے شمشیر اپنی نوالے کی خاطر یہ حرمت نہ بیچے سنبھالے یہ ...

    مزید پڑھیے

    جھٹکا

    ایک ہی پل میں ٹوٹ کر ہو گیا چور چور وو میرے خوابوں کا تاج محل جب مجھے لگا جھٹکا

    مزید پڑھیے