اپنی ہی راہوں کا پتھر ہو گئے

اپنی ہی راہوں کا پتھر ہو گئے
ہم بھی کیا اہل مقدر ہو گئے


ہم نہیں بن پائے ہرگز آفتاب
ڈوبتے تاروں کا منظر ہو گئے


لوٹ پائیں گے کسی صورت نہ وہ
اپنے گھر سے ہی جو بے گھر ہو گئے


بک رہے تھے مصر کے بازار میں
ہم مگر سستے میسر ہو گئے


زندگی لے آئی یہ کس موڑ پر
ہم سراسر غم کا پیکر ہو گئے