جس نے شیرازہ بکھیرا عمر کا

جس نے شیرازہ بکھیرا عمر کا
یہ جنوں حاصل ہے میرا عمر کا


ایک لمحہ کیا ملا تھا ہجر کو
کر لیا اس نے بسیرا عمر کا


تھا دیا لیکن اسے بجھنے دیا
چن لیا میں نے اندھیرا عمر کا


ایک دن آئے گا جب آفاق میں
ڈوب جائے گا سویرا عمر کا


کو بہ کو ہیں ہجر کی پرچھائیاں
اس سے ہے آباد ڈیرا عمر کا


جانتی ہوں چند لمحے ساتھ ہے
ہو نہیں سکتا وہ میرا عمر کا


روزؔ تیرے ہجر میں مسرور ہے
ہے یہی احسان تیرا عمر کا