گرچہ مدھم دکھائی دیتا ہے
گرچہ مدھم دکھائی دیتا ہے
اس کو تاہم دکھائی دیتا ہے
وصل کو خواب جاننے والے
کیا تجھے کم دکھائی دیتا ہے
حسن جب سے گریز پا ہے ذرا
شوق برہم دکھائی دیتا ہے
رات بھر ٹوٹتا ہوا تارا
مجھ کو پیہم دکھائی دیتا ہے
روزؔ دیتا ہے ایک زخم نیا
وہ جو مرہم دکھائی دیتا ہے