جب دیکھتے رہتے ہیں وہ کردار ہمارے
جب دیکھتے رہتے ہیں وہ کردار ہمارے
ہوں کیوں نہ پشیماں در و دیوار ہمارے
دیتے ہیں ہر اک راہ میں رہ گیر کو سایہ
جلتے ہیں کڑی دھوپ میں اشجار ہمارے
تقسیم کے صدقے میں ہمیں کچھ تو ملے گا
چل پھول تمہارے ہیں تو سب خار ہمارے
آ جاؤ کہ مل جل کے کوئی شکل بنا لیں
ہیں تشنۂ تکمیل وہ شہ کار ہمارے
صدیوں کے قرینے لیے تہذیب ہماری
یوں روزؔ بدلتے نہیں معیار ہمارے