Rehman Musawwir

رحمان مصور

رحمان مصور کی غزل

    ہلکی ہلکی دھوپ کھلی تھی

    ہلکی ہلکی دھوپ کھلی تھی وہ میرے بازو بیٹھی تھی میں کھویا کھویا رہتا تھا وہ الجھی الجھی رہتی تھی گھر میں پھول بکھر جاتے تھے وہ جب بھی کھل کر ہنستی تھی اب کے ٹوٹا تھا سناٹا اب کے خاموشی بولی تھی سننے والا کوئی تو ہوتا ہم نے کام کی بات کہی تھی جب میں عشق میں خاک ہوا تھا تب صحرا ...

    مزید پڑھیے

    یہ تعلق کے تقاضوں کو بھی کھا جاتا ہے

    یہ تعلق کے تقاضوں کو بھی کھا جاتا ہے شک محبت کی کتابوں کو بھی کھا جاتا ہے میں تو اک مانس کا ٹکڑا ہوں مری کیا اوقات غم کا کیڑا تو پہاڑوں کو بھی کھا جاتا ہے رات کرتی ہے خموشی سے حفاظت دن کی دن مگر چاند ستاروں کو بھی کھا جاتا ہے یہ تو دریا پہ ہے پانی سے بنا کر رکھے ورنہ سیلاب کناروں ...

    مزید پڑھیے

    اوسان پر یوں اس نے قابو کیا ہوا ہے

    اوسان پر یوں اس نے قابو کیا ہوا ہے جیسے کہ مجھ پہ کالا جادو کیا ہوا ہے باتیں سجا رکھی ہیں دیوار پر دیے سی یادوں کو میں نے اس کی جگنو کیا ہوا ہے مٹی کے اس بدن میں ہے روح نرتکی سی سانسوں کو اس نے میری گھنگھرو کیا ہوا ہے ہندی مہک رہی ہے لوبان جیسی میری لہجے کو میں نے اپنے اردو کیا ...

    مزید پڑھیے

    ہمارے غم کا چرچا ہو رہا ہے

    ہمارے غم کا چرچا ہو رہا ہے عجب جشن تمنا ہو رہا ہے میں باہر سے اچک کر دیکھتا ہوں مرے اندر تماشا ہو رہا ہے نئے کی فکر میں ہم گھل رہے ہیں نیا ہر پل پرانا ہو رہا ہے بدن میں چبھ رہی ہے تیز بارش ندی کا زخم گہرا ہو رہا ہے تمہاری یاد دھندلی پڑ رہی ہے تو کیا قسمت کا لکھا ہو رہا ہے کھدائی ...

    مزید پڑھیے

    سرمئی شام کے خواب اوڑھے ہوئے کوئی آتا رہا کوئی جاتا رہا

    سرمئی شام کے خواب اوڑھے ہوئے کوئی آتا رہا کوئی جاتا رہا چلچلاتی ہوئی دھوپ کے سائے میں ایک بوڑھا شجر مسکراتا رہا پتھروں کے بدن سے لپٹتی ہوئی کہکشاں رقص کرتی رہی رات بھر نیم عریاں خیالات کا دیوتا اپسراؤں کو نغمے سناتا رہا جب کہ ہوش و خرد مضمحل ہو گئے دل اندھیروں کی بستی میں گم ...

    مزید پڑھیے

    وہ کہتے تھے کہ دیکھو چینٹیوں کے پر نکل آئے

    وہ کہتے تھے کہ دیکھو چینٹیوں کے پر نکل آئے بس اتنی بات تھی ہم چھوڑ اپنا گھر نکل آئے ہمارے شہر میں سر کی حفاظت مسئلہ ٹھہرا کسے معلوم ہے کس سمت سے پتھر نکل آئے کسی آواز نے آواز دی خاموشیاں ٹوٹیں جہاں تھیں صرف دیواریں وہاں پر در نکل آئے مری فہرست سے ایک نام بھی خارج نہیں ہوتا نہ ...

    مزید پڑھیے

    پہلی بار ملے تھے تم

    پہلی بار ملے تھے تم تب تھے کتنے بھولے تم کل تو خوب چہکتے تھے آج نہیں ہو ویسے تم کچھ تو سبب ہے منزل پر مجھ سے پہلے پہنچے تم موسم ٹھہرا ٹھہرا ہے کیوں ہو اکھڑے اکھڑے تم خیر مجھے تو کام بہت کیوں ہو شب بھر جاگے تم موتی میرے ہاتھ لگے گہرائی میں اترے تم ایک حقیقت بنتے ہیں آدھا میں ...

    مزید پڑھیے

    نیم جیسا میرا لہجہ اور وہ میٹھا بہت

    نیم جیسا میرا لہجہ اور وہ میٹھا بہت پھر بھی اس نے دوستی کے نام پر جھیلا بہت ایک سورج میری چھت پر دھوپ لینے آ گیا لگ رہا ہے آج کا دن اس لیے اجلا بہت چھیڑ دیتی ہے تمہاری یاد کوئی گیت پھر دل میں جب بھی گونجنے لگتا ہے سناٹا بہت چاند ہے پانی میں اترا اور میں بے چین ہوں ہاتھ میں رسی ہے ...

    مزید پڑھیے

    جان و دل سنسان ہیں اجڑے قبیلوں کی طرح

    جان و دل سنسان ہیں اجڑے قبیلوں کی طرح خواہشیں خاموش ہیں بے بس فصیلوں کی طرح یوں کیا بس سانس لینے بھر کی فرصت دی ہمیں اس نے کی ہم پر مسیحائی بخیلوں کی طرح جس طرح چاہا ہمیں اپیوگ میں لایا گیا ہم رہے دیوار میں پیوست کیلوں کی طرح عمر بھر کرتے رہے ہم آسمانوں کا سفر منزلیں چپکی رہیں ...

    مزید پڑھیے

    ہے گلی سنسان کھڑکی بند رکھ

    ہے گلی سنسان کھڑکی بند رکھ میں یہاں انجان کھڑکی بند رکھ کیا پتہ کب پار ہو جائیں حدیں تیز ہے طوفان کھڑکی بند رکھ میں تو بنجارا ہوں مجھ سے اس قدر مت بڑھا پہچان کھڑکی بند رکھ اب ہمارے گاؤں کے معصوم بھی ہو گئے شیطان کھڑکی بند رکھ

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3