چمک یوں ہی نہیں لفظوں میں آئی
چمک یوں ہی نہیں لفظوں میں آئی کیا ہے خون دل کو روشنائی مرے چہرے سے چپکی تھی اداسی ہنسی مایوس ہو کر لوٹ آئی تمناؤں نے کی صحرا نوردی جنوں نے شہر میں ہی خاک اڑائی میں دل کی بات سننے کا ہوں عادی مبارک تم کو پتھر کی خدائی کتابیں عشق کی گم ہو گئی ہیں ادھوری رہ گئی میری پڑھائی اجالا ...