یہ تعلق کے تقاضوں کو بھی کھا جاتا ہے

یہ تعلق کے تقاضوں کو بھی کھا جاتا ہے
شک محبت کی کتابوں کو بھی کھا جاتا ہے


میں تو اک مانس کا ٹکڑا ہوں مری کیا اوقات
غم کا کیڑا تو پہاڑوں کو بھی کھا جاتا ہے


رات کرتی ہے خموشی سے حفاظت دن کی
دن مگر چاند ستاروں کو بھی کھا جاتا ہے


یہ تو دریا پہ ہے پانی سے بنا کر رکھے
ورنہ سیلاب کناروں کو بھی کھا جاتا ہے


میرے کمرے میں بھرا رہتا ہے دستک کا غبار
یہ وہ گھن ہے جو کواڑوں کو بھی کھا جاتا ہے


تجھ میں پرواز کی قوت ہے مگر دھیان رہے
اک اہنکار اڑانوں کو بھی کھا جاتا ہے


دو گھڑی رکنا ضروری ہے مصورؔ ورنہ
راستہ پاؤں کے چھالوں کو بھی کھا جاتا ہے