ہلکی ہلکی دھوپ کھلی تھی

ہلکی ہلکی دھوپ کھلی تھی
وہ میرے بازو بیٹھی تھی


میں کھویا کھویا رہتا تھا
وہ الجھی الجھی رہتی تھی


گھر میں پھول بکھر جاتے تھے
وہ جب بھی کھل کر ہنستی تھی


اب کے ٹوٹا تھا سناٹا
اب کے خاموشی بولی تھی


سننے والا کوئی تو ہوتا
ہم نے کام کی بات کہی تھی


جب میں عشق میں خاک ہوا تھا
تب صحرا میں خاک اڑی تھی


اک جھرنے نے نغمہ گایا
پتھر نے آواز سنی تھی


جشن تھا برپا جنگل جنگل
شہروں شہروں آگ لگی تھی


عشق سمندر تھا بے پروا
ریت میں ندی سر دھنتی تھی


ایسی بات کہی تھی اس نے
سیدھے دل پر چوٹ لگی تھی


پکی اینٹوں کا آنگن تھا
دیواروں پر بیل اگی تھی