وہ کہتے تھے کہ دیکھو چینٹیوں کے پر نکل آئے

وہ کہتے تھے کہ دیکھو چینٹیوں کے پر نکل آئے
بس اتنی بات تھی ہم چھوڑ اپنا گھر نکل آئے


ہمارے شہر میں سر کی حفاظت مسئلہ ٹھہرا
کسے معلوم ہے کس سمت سے پتھر نکل آئے


کسی آواز نے آواز دی خاموشیاں ٹوٹیں
جہاں تھیں صرف دیواریں وہاں پر در نکل آئے


مری فہرست سے ایک نام بھی خارج نہیں ہوتا
نہ جانے کون کن حالات میں بہتر نکل آئے


مصورؔ لوگ کچھ باہر کے اندر جم کے بیٹھے ہیں
جنہیں اندر ہی رہنا تھا وہ بس باہر نکل آئے