Rehman Musawwir

رحمان مصور

رحمان مصور کی غزل

    روشنی اجنبی سی لگتی ہے

    روشنی اجنبی سی لگتی ہے آنکھ میں کرکری سی لگتی ہے وہ کہیں دور ہنس رہی ہوگی پھول میں تازگی سی لگتی ہے اس نے کپڑے وہاں سکھائے تھے وہ جہاں روشنی سی لگتی ہے اوس کی بوند سبز پتے پر ایک ننھی پری سی لگتی ہے تیرے بن کچھ کمی نہیں لیکن پھر بھی کوئی کمی سی لگتی ہے رات بارش نے بال کھولے ...

    مزید پڑھیے

    اسی بازار تک بس روشنی ہے

    اسی بازار تک بس روشنی ہے پھر اس کے بعد اک اندھی گلی ہے ہر اک آواز میں ہے اجنبیت ہر اک چہرے پہ اک بے چہرگی ہے یہاں رسماً ہے سب کی خوش لباسی نظر سے بے لباسی جھانکتی ہے ہے گھر میں خامشی کا ایک جنگل اسی جنگل میں کالا ناگ بھی ہے عجب درگندھ ہے واتاورن میں کسی تالاب میں مچھلی مری ...

    مزید پڑھیے

    ہوس کی آنکھ میں جگنو مچلنے لگتے ہیں

    ہوس کی آنکھ میں جگنو مچلنے لگتے ہیں نظر جھکا کے وہ جب ہاتھ ملنے لگتے ہیں ذرا سی دیر میں شکلیں بدلنے لگتے ہیں ہوا کے لمس سے بادل پگھلنے لگتے ہیں ہے لازمی کوئی تحریک زندگی کے لیے پڑے پڑے میاں شہتیر گلنے لگتے ہیں پرانی برف کا میں جب بھی ذکر سنتا ہوں نہ جانے پاؤں مرے کیوں پھسلنے ...

    مزید پڑھیے

    یوں آنے والے اکیلے پن کے لیے میں یادیں بنا رہا ہوں

    یوں آنے والے اکیلے پن کے لیے میں یادیں بنا رہا ہوں کہ اس کے نزدیک بیٹھ کر کچھ فضول باتیں بنا رہا ہوں اداس موسم اداس جھولے اداس پھرتے ہیں سب پرندے سو ان کی خاطر میں بازوؤں سے شجر میں شاخیں بنا رہا ہوں میں جانتا ہوں وہ خود غرض ہے پر اس طبیعت کا کوئی حل ہے وہ میرے دن خاک کر رہا ہے ...

    مزید پڑھیے

    عجب اک مسئلہ پیش آ گیا تھا

    عجب اک مسئلہ پیش آ گیا تھا میں اپنے آپ سے ٹکرا گیا تھا تمہارے ہجر کا عادی ہوں جاناں تمہارے قرب سے اکتا گیا تھا نہ پوچھو ہاؤ ہو یادوں کی کیا تھی وہ تنہائی تھی دل گھبرا گیا تھا وہ آنکھیں بند تھیں اندر سے شاید میں الٹے پاؤں واپس آ گیا تھا تجھے چھونے کی گستاخی پہ نادم میں اپنی ...

    مزید پڑھیے

    پچھلی شب خواب محبت کا دکھایا گیا تھا

    پچھلی شب خواب محبت کا دکھایا گیا تھا صبح میں پیڑ سے لٹکا ہوا پایا گیا تھا ان پہ ظاہر تھا مرا عشق حسینی تبھی تو تپتے صحرا میں مجھے دھوکے سے لایا گیا تھا ایک بہرے کو سنایا گیا فرمان طرب ایک اندھے کو اشارے سے بلایا گیا تھا اس ہتھیلی پہ اگائے گئے زخموں کے گلاب جس ہتھیلی پہ نیا خواب ...

    مزید پڑھیے

    کبھی باہر نہیں آتی سدا پردے میں رہتی ہے

    کبھی باہر نہیں آتی سدا پردے میں رہتی ہے خدا جانے تمنا کس کے بہکاوے میں رہتی ہے تمہارا ساتھ میری زندگی بھر کی کمائی تھی گئے ہو جب سے تم یہ زندگی گھاٹے میں رہتی ہے جسے ہم لوگ مل کر آشرم میں چھوڑ آئے تھے وہ چرخا کاتتی ہے چاند کے چہرے میں رہتی ہے اسے ہم پر تو دیتے ہیں مگر اڑنے نہیں ...

    مزید پڑھیے

    چند مہمل سی سرگوشیوں سے پرے خامشی کی ردا میں ہیں لپٹے ہوئے

    چند مہمل سی سرگوشیوں سے پرے خامشی کی ردا میں ہیں لپٹے ہوئے لب بہ لب ہو گئے جب زمیں آسماں چاند ابھرا افق پر چمکتے ہوئے رات ہم سے بغل گیر ایسے ہوئی سارے روشن تصور ہوئے سانولے راہ سورج کی تکتے رہے صبح تک ہم اجالے کی چوکھٹ پہ بیٹھے ہوئے لذتلمس سے بند آنکھیں ہوئیں صرف سانسوں سے ہوتی ...

    مزید پڑھیے

    مری نگاہ کو اے کاش یہ ہنر آئے

    مری نگاہ کو اے کاش یہ ہنر آئے میں آنکھ بند کروں اور وہ نظر آئے ہمیں نہ پیاس کی شدت نہ کچھ تھکن کا گلہ اے زندگی ترے صحرا سے ہم گزر آئے تمہاری تلخ کلامی سے جی اداس ہوا جو بھر چکے تھے مرے زخم پھر ابھر آئے صحن میں بیٹھ کے ہم پھر ہنسی مذاق کریں خدا کرے کبھی موسم وہ لوٹ کر آئے بھگو رہی ...

    مزید پڑھیے

    محسوس جو کرتے ہو یہ ہلچل مرے اندر

    محسوس جو کرتے ہو یہ ہلچل مرے اندر کچھ ٹوٹتا رہتا ہے مسلسل مرے اندر ہونٹھوں پہ تبسم کے گلابوں کی نمائش ہے ناگ پھنی کا کوئی جنگل مرے اندر مشکل ہے کہ یہ پیاس مری کیسے مٹے گی صحرا ہیں مرے ہونٹھ تو بادل مرے اندر اس بار جو اس نے مجھے باہر سے سمیٹا اس بار ہوا خواب مکمل مرے اندر اس روح ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3