اسی بازار تک بس روشنی ہے

اسی بازار تک بس روشنی ہے
پھر اس کے بعد اک اندھی گلی ہے


ہر اک آواز میں ہے اجنبیت
ہر اک چہرے پہ اک بے چہرگی ہے


یہاں رسماً ہے سب کی خوش لباسی
نظر سے بے لباسی جھانکتی ہے


ہے گھر میں خامشی کا ایک جنگل
اسی جنگل میں کالا ناگ بھی ہے


عجب درگندھ ہے واتاورن میں
کسی تالاب میں مچھلی مری ہے


ہمیں آکاش پر جانا تھا لیکن
ہمارے پاؤں میں رسی بندھی ہے


ذرا لہجے کو تم شائستہ کر لو
تمہارے پیچھے اک لڑکی کھڑی ہے


وہ چہرا جو کبھی دیکھا نہیں تھا
وہ چہرا یاد مجھ کو آج بھی ہے


ابھی ہیں خواب گیلے بادلوں کے
ابھی بارش میں لڑکی بھیگتی ہے