یوں آنے والے اکیلے پن کے لیے میں یادیں بنا رہا ہوں
یوں آنے والے اکیلے پن کے لیے میں یادیں بنا رہا ہوں
کہ اس کے نزدیک بیٹھ کر کچھ فضول باتیں بنا رہا ہوں
اداس موسم اداس جھولے اداس پھرتے ہیں سب پرندے
سو ان کی خاطر میں بازوؤں سے شجر میں شاخیں بنا رہا ہوں
میں جانتا ہوں وہ خود غرض ہے پر اس طبیعت کا کوئی حل ہے
وہ میرے دن خاک کر رہا ہے میں اس کی راتیں بنا رہا ہوں
مجھے خود اپنے بدن سے کرنیں نکلتی محسوس ہو رہی ہیں
میں کینوس پر حسین لڑکی کی شوخ آنکھیں بنا رہا ہوں
کمان آبرو سیاہ پلکیں گلاب عارض غزال آنکھیں
ہے جن سے وابستہ عشق میرا وہ ساری یادیں بنا رہا ہوں