Raza Muradabadi

رضا مراد آبادی

رضا مراد آبادی کی غزل

    عجیب شان سے نکلے ہیں آج دیوانے

    عجیب شان سے نکلے ہیں آج دیوانے لبوں پہ مہر خموشی نظر میں افسانے مرے جنوں کی کوئی حد نہیں رہی شاید بہ نام عشق وہ آئے ہیں آج سمجھانے نگاہ لطف محبت کی موت ہے اے دل خدا کرے کہ وہ مجھ کو کبھی نہ پہچانے نگاہ مست کی ہیں آفرینیاں توبہ نظر اٹھی تھی کہ گردش میں آئے پیمانے

    مزید پڑھیے

    اتفاقاً ملے تھے وہ سر راہ

    اتفاقاً ملے تھے وہ سر راہ پھر نہ اٹھی کسی طرف بھی نگاہ ہے تبسم بجائے خود اک آہ اے غم عاشقی خدا کی پناہ غم اٹھاتا ہوں شکر کرتا ہوں عشق بے چارگی خدا کی پناہ زندگی اس قدر ذلیل نہ کر اب وہ ملتے بھی ہیں تو بر سر راہ بے تعلق بھی ہیں وہ مجھ سے رازؔ میری بربادیوں پہ بھی ہے نگاہ

    مزید پڑھیے

    ترے خیال سے فرصت جو عمر بھر نہ ہوئی

    ترے خیال سے فرصت جو عمر بھر نہ ہوئی کب اپنے آپ سے گزرے ہمیں خبر نہ ہوئی نہیں کہ تیری توجہ کبھی ادھر نہ ہوئی مجھے سوال کی جرأت ہی عمر بھر نہ ہوئی بہ قید ہوش محبت عذاب دیدہ و دل جگر کا خون تو کیا جرأت نظر نہ ہوئی سحر کے نام پہ بزم نشاط کی برہم چراغ ہم نے بجھائے مگر سحر نہ ...

    مزید پڑھیے

    غم کہ تھا حریف جاں اب حریف جاناں ہے

    غم کہ تھا حریف جاں اب حریف جاناں ہے اب وہ زلف برہم ہے اب وہ چشم گریاں ہے وسعتوں میں دامن کی ان دنوں گریباں ہے ہم نفس کہیں شاید موسم بہاراں ہے رنگ و بو کے پردے میں کون یہ خراماں ہے ہر نفس معطر ہے ہر نظر گلستاں ہے دیر کیا حرم کیا ہے بندگی یہ کیا جانے ہم جہاں پہ ہیں واعظ کفر ہے نہ ...

    مزید پڑھیے

    یہ تو نہیں کہ ان سے محبت نہیں مجھے

    یہ تو نہیں کہ ان سے محبت نہیں مجھے پہلی سی والہانہ عقیدت نہیں مجھے اب میں ہوں اور اپنی طلب اپنی آرزو اپنے سوا کسی کی ضرورت نہیں مجھے جیسے کسی نے دولت کونین بخش دی غم وہ ملا کہ شکوۂ قسمت نہیں مجھے ہے ترک معصیت میں بھی پہلو گناہ کا کیا اعتبار وعدۂ رحمت نہیں مجھے جلوہ کچھ اس ادا ...

    مزید پڑھیے

    چاندنی رات سوگوار نہیں

    چاندنی رات سوگوار نہیں جیسے اب ان کا انتظار نہیں اپنی ہی آرزو میں مرتا ہوں اب کسی کا بھی انتظار نہیں اب جنوں ہے مرا تمام ہی ہوش اب گریبان تار تار نہیں دل کی بے کیفیوں کو کیا کیجے فصل گل ہے مگر بہار نہیں عشق وہ نشہ ہے کہ جس میں رازؔ کیف و مستی تو ہے خمار نہیں

    مزید پڑھیے

    رہے گی یاد یہ فصل بہار ہم نفسو

    رہے گی یاد یہ فصل بہار ہم نفسو کیا ہے رقص سر نوک خار ہم نفسو یہ مصلحت کا تقاضا کہ سر جھکا کے چلیں پکارتا ہے جنوں سوئے دار ہم نفسو بڑھے چلو کہ ابھی دور ہے مقام جنوں کہاں رکے ہو سر رہ گزار ہم نفسو یہ کس نے آگ لگائی ہے آج پانی میں قبائے زہد بھی ہے تار تار ہم نفسو

    مزید پڑھیے

    یہ کس کی آرزو دل شوریدہ سر میں ہے

    یہ کس کی آرزو دل شوریدہ سر میں ہے دنیا خیال میں ہے نہ عقبیٰ نظر میں ہے دل کو ہے ان کے وعدۂ فردا پہ اعتبار اب تک فریب گردش شام و سحر میں ہے کیا کیجئے شکایت حرماں کہ ہم نفس اک موج انفعال کسی کی نظر میں ہے رکتے نہیں ہیں پائے جہت آشنا کہیں منزل بھی ایک سنگ نشاں رہ گزر میں ہے عنواں ...

    مزید پڑھیے

    کہاں کے جام و سبو کیا طلوع مے خانہ

    کہاں کے جام و سبو کیا طلوع مے خانہ تری نگاہ نہ کرتی جو کار رندانہ حریم حسن نہ کعبہ نہ صحن بت خانہ دل شکستۂ عاشق ہے خلد جانانہ یہ تیری یاد کا اعجاز تھا کہ فیض جنوں ہر اک مقام سے گزرا ہوں بے نیازانہ بط شراب تھی خاموش دل زدہ مے کش یہ کون آیا کہ لو دے اٹھا ہے مے خانہ قلندری مرا ...

    مزید پڑھیے

    سینے کا داغ داغ فروزاں کئے ہوئے

    سینے کا داغ داغ فروزاں کئے ہوئے بیٹھے ہیں بزم دوست چراغاں کئے ہوئے او جانے والے دل کو بیاباں کئے ہوئے آنا پڑے گا چاک گریباں کئے ہوئے یا رب جنون ترک محبت کی خیر ہو وہ آ رہے ہیں عزم دل و جاں کئے ہوئے بیٹھے ہیں بزم دوست میں آشفتگان غم اشک چکیدہ زینت مژگاں کئے ہوئے سرگرم التفات ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2