غم کہ تھا حریف جاں اب حریف جاناں ہے

غم کہ تھا حریف جاں اب حریف جاناں ہے
اب وہ زلف برہم ہے اب وہ چشم گریاں ہے


وسعتوں میں دامن کی ان دنوں گریباں ہے
ہم نفس کہیں شاید موسم بہاراں ہے


رنگ و بو کے پردے میں کون یہ خراماں ہے
ہر نفس معطر ہے ہر نظر گلستاں ہے


دیر کیا حرم کیا ہے بندگی یہ کیا جانے
ہم جہاں پہ ہیں واعظ کفر ہے نہ ایماں ہے


شکریہ مگر ناصح تو یہ رازؔ کیا جانے
جور برملا ان کا التفات پنہاں ہے