ترے خیال سے فرصت جو عمر بھر نہ ہوئی
ترے خیال سے فرصت جو عمر بھر نہ ہوئی
کب اپنے آپ سے گزرے ہمیں خبر نہ ہوئی
نہیں کہ تیری توجہ کبھی ادھر نہ ہوئی
مجھے سوال کی جرأت ہی عمر بھر نہ ہوئی
بہ قید ہوش محبت عذاب دیدہ و دل
جگر کا خون تو کیا جرأت نظر نہ ہوئی
سحر کے نام پہ بزم نشاط کی برہم
چراغ ہم نے بجھائے مگر سحر نہ ہوئی
تجلیوں نے دیے سینکڑوں فریب مگر
اسیر دام مری شوخیٔ نظر نہ ہوئی
افق کے پار اجالے ہیں صبح صادق کے
ہم انتظار میں بیٹھے رہے سحر نہ ہوئی
وطن کی خاک سے آتی ہے بوئے خوں پیہم
کہ پاک راہزنوں سے یہ رہ گزر نہ ہوئی