یہ تو نہیں کہ ان سے محبت نہیں مجھے
یہ تو نہیں کہ ان سے محبت نہیں مجھے
پہلی سی والہانہ عقیدت نہیں مجھے
اب میں ہوں اور اپنی طلب اپنی آرزو
اپنے سوا کسی کی ضرورت نہیں مجھے
جیسے کسی نے دولت کونین بخش دی
غم وہ ملا کہ شکوۂ قسمت نہیں مجھے
ہے ترک معصیت میں بھی پہلو گناہ کا
کیا اعتبار وعدۂ رحمت نہیں مجھے
جلوہ کچھ اس ادا سے دکھا کر چلے گئے
شکوہ تو کیا ہے شکر کی فرصت نہیں مجھے
بیزار ہوں تو اپنے مذاق وفا سے ہوں
اس کے سوا کسی سے شکایت نہیں مجھے