اتفاقاً ملے تھے وہ سر راہ
اتفاقاً ملے تھے وہ سر راہ
پھر نہ اٹھی کسی طرف بھی نگاہ
ہے تبسم بجائے خود اک آہ
اے غم عاشقی خدا کی پناہ
غم اٹھاتا ہوں شکر کرتا ہوں
عشق بے چارگی خدا کی پناہ
زندگی اس قدر ذلیل نہ کر
اب وہ ملتے بھی ہیں تو بر سر راہ
بے تعلق بھی ہیں وہ مجھ سے رازؔ
میری بربادیوں پہ بھی ہے نگاہ