عجیب شان سے نکلے ہیں آج دیوانے
عجیب شان سے نکلے ہیں آج دیوانے
لبوں پہ مہر خموشی نظر میں افسانے
مرے جنوں کی کوئی حد نہیں رہی شاید
بہ نام عشق وہ آئے ہیں آج سمجھانے
نگاہ لطف محبت کی موت ہے اے دل
خدا کرے کہ وہ مجھ کو کبھی نہ پہچانے
نگاہ مست کی ہیں آفرینیاں توبہ
نظر اٹھی تھی کہ گردش میں آئے پیمانے