یہ کس کی آرزو دل شوریدہ سر میں ہے
یہ کس کی آرزو دل شوریدہ سر میں ہے
دنیا خیال میں ہے نہ عقبیٰ نظر میں ہے
دل کو ہے ان کے وعدۂ فردا پہ اعتبار
اب تک فریب گردش شام و سحر میں ہے
کیا کیجئے شکایت حرماں کہ ہم نفس
اک موج انفعال کسی کی نظر میں ہے
رکتے نہیں ہیں پائے جہت آشنا کہیں
منزل بھی ایک سنگ نشاں رہ گزر میں ہے
عنواں کہوں کہ رازؔ اسے جان داستاں
اک اشک مضطرب جو ابھی چشم تر میں ہے