یہ رنگ ہے تو کہاں ضبط کا رہے گا بھرم
یہ رنگ ہے تو کہاں ضبط کا رہے گا بھرم نہ اب وہ ناز تغافل نہ مجھ پہ جور و ستم یہ شاخ گل ہے کہ دل کی جراحتوں کا علم ہر ایک گل نظر آتا ہے زخم بے مرہم غبار راہ کہیں ہے نہ کوئی نقش قدم ابھی ابھی تو یہیں تھے مسافران عدم اب آ گئے ہیں تو آداب میکشی کی قسم بس ایک جام رفاقت جناب شیخ حرم اٹھا ...