کہاں کے جام و سبو کیا طلوع مے خانہ
کہاں کے جام و سبو کیا طلوع مے خانہ
تری نگاہ نہ کرتی جو کار رندانہ
حریم حسن نہ کعبہ نہ صحن بت خانہ
دل شکستۂ عاشق ہے خلد جانانہ
یہ تیری یاد کا اعجاز تھا کہ فیض جنوں
ہر اک مقام سے گزرا ہوں بے نیازانہ
بط شراب تھی خاموش دل زدہ مے کش
یہ کون آیا کہ لو دے اٹھا ہے مے خانہ
قلندری مرا مسلک سکندری ہے طریق
گزر رہا ہوں دو عالم سے بے نیازانہ
چھپا رہا ہوں زمانے سے دل کے زخموں کو
کہ تیرا نام نہ ہو جائے زیب افسانہ
بڑھا جو علم تو ذہنوں کو کر گیا تاریک
حقیقتوں کا بناتے ہیں لوگ افسانہ
وہ کم نظر ہیں جو دیتے ہیں شمع کو الزام
خود اپنی آگ میں جلتا ہے آپ پروانہ
خدا شناس و خود آگہی سرشت جنوں
خرد اسیر تو ہم ہیں خرد صنم خانہ
ٹھہر گیا ہوں کہاں جادۂ تمنا میں
ہر آرزو نظر آتی ہے ایک بت خانہ
زمین حضرت اقبالؔ میں یہ تازہ غزل
حضور حضرت اقبالؔ میرا نذرانہ