رشمی صبا کی غزل

    اچانک سامنے وہ آ گیا تو

    اچانک سامنے وہ آ گیا تو پلٹ دے میرا ہر اک فیصلہ تو مسلسل آزماتے جا رہے ہو اگر نکلا کبھی وہ بے وفا تو جلا کرتی ہے جس کے ساتھ شب بھی وہ تارا جلتے جلتے بجھ گیا تو فلک کی بے رخی سے تنگ آ کر زمیں نے کر لیا کچھ فیصلہ تو مرا سایہ جو مجھ سے کھو گیا تھا کسی دن راہ چلتے مل گیا تو ہوا سے ...

    مزید پڑھیے

    جب سے وہ دور ہو گیا مجھ سے

    جب سے وہ دور ہو گیا مجھ سے کھو گیا میرا ہی پتہ مجھ سے میرا نقصان ہر طرح سے ہے مانگتا ہے وہ مشورہ مجھ سے کیا مری اہمیت بڑھی ہے ادھر شہر میں کیوں ہیں سب خفا مجھ سے اور کچھ رخ نکالنے کے لئے سننا چاہے گا واقعہ مجھ سے میری دنیا مرا جہان ہے وہ جس کی دنیا ہے کچھ جدا مجھ سے ہائے کس پھول ...

    مزید پڑھیے

    زمانے والوں کے چہروں پہ کتنے ڈر نکلے

    زمانے والوں کے چہروں پہ کتنے ڈر نکلے فلک کی چاہ میں جب بھی زمیں کے پر نکلے بھٹکنا چاہوں بھی تو دنیا مختصر نکلے جدھر بڑھاؤں قدم تیری رہ گزر نکلے یشودھرا کی طرح نیند میں چھلی گئی تو میں چاہتی ہوں مرے خواب سے یہ ڈر نکلے کبھی خیال میں سوچو وہ رات کا چہرہ کہ جس گھڑی وہ دعا کرتی ہے ...

    مزید پڑھیے

    کہیں سے آتی صدا ہے کوئی

    کہیں سے آتی صدا ہے کوئی صدا نہیں ہے دعا ہے کوئی کہاں پتہ تھی یہ بات مجھ کو کہ مجھ میں کب سے چھپا ہے کوئی سمجھ رہے تھے جسے جزیرہ سمندروں میں گھرا ہے کوئی چمک رہا ہے جو چاند بن کے یہیں سے اٹھ کر گیا ہے کوئی ذرا سنبھل کر قدم بڑھانا اسی سفر میں لٹا ہے کوئی وفا بھی دے دی انا بھی دے ...

    مزید پڑھیے

    تھا خفا مجھ سے بد گمان بھی تھا

    تھا خفا مجھ سے بد گمان بھی تھا اور وہی مجھ پہ مہربان بھی تھا جب ستاروں کی زد میں آئی میں تب لگا سر پہ آسمان بھی تھا پھول کتنے کھلے تھے دل میں مگر اک وہیں زخم کا نشان بھی تھا کس سے کرتی میں دھوپ کا شکوہ میرا سورج ہی سائبان بھی تھا ضبط احساس ہم بھی کر لیں گے اس یقیں پر صباؔ گمان ...

    مزید پڑھیے

    روشنی میری ہوا چاہتی ہے

    روشنی میری ہوا چاہتی ہے بس وہ دروازہ کھلا چاہتی ہے قتل ہونے سے بچا چاہتی ہے میری تنہائی دعا چاہتی ہے بیل ضدی ہے جنوں کی میری وہ لپٹنے کو ہوا چاہتی ہے گھر کا دروازہ کبھی کھلتا نہیں پھر بھی دہلیز دیا چاہتی ہے میری تخلیق خفا ہے مجھ سے میری پہچان جدا چاہتی ہے دل یہ چاہے کہ میں ...

    مزید پڑھیے

    درد بیتاب ہے الفاظ میں ڈھلنے کے لئے

    درد بیتاب ہے الفاظ میں ڈھلنے کے لئے راستہ چاہیے سب کو ہی نکلنے کے لئے ختم ہو جاتا ہے سب کچھ کبھی اک لمحے میں اور اک لمحہ ہی کافی ہے سنبھلنے کے لئے ایسی بارش کی زمیں غرق ہوئی جاتی ہے ابر کچھ وقت تو دے دیتا سنبھلنے کے لئے میں دیا ہوں میری فطرت ہے اجالا کرنا وہ سمجھتے ہیں کہ مجبور ...

    مزید پڑھیے

    چاند تاروں نے کوئی شے تو چھپائی ہوئی ہے

    چاند تاروں نے کوئی شے تو چھپائی ہوئی ہے ورنہ کیوں رات پریشانی میں آئی ہوئی ہے اس میں تبدیلی مری آنکھوں کو منظور نہیں وہ جو تصویر مرے دل نے بنائی ہوئی ہے مرنے دیتی ہے نہ جینے کی اجازت ہے مجھے ایک شے ایسی میری جاں میں سمائی ہوئی ہے ہم بناتے ہیں کوئی راہ گزر روز نئی روز دیوار ...

    مزید پڑھیے

    لفظ ہو پائی نہیں پھر بھی معانی میں ہوں میں

    لفظ ہو پائی نہیں پھر بھی معانی میں ہوں میں یعنی کردار نہیں اور کہانی میں ہوں میں میری پہچان حوالوں ہی سے دی جاتی ہے سیدھا اک نام نہیں ہوتا ہے یعنی میں ہوں میں موج دریا کی تمہیں ساتھ لئے چلتی ہے اور ادھر جھیل کے ٹھہرے ہوئے پانی میں ہوں میں منزلیں گم ہیں قدم ٹھہرے ہوئے ہیں پھر ...

    مزید پڑھیے

    دلوں سے ہوتی ہوئی روح تک اتر آئی

    دلوں سے ہوتی ہوئی روح تک اتر آئی کسی کی یاد بھی آئی تو کس قدر آئی تمام رات نہاتی رہی تھی بارش میں تبھی تو اتنی چمکتی ہوئی سحر آئی کسی نے دل کی کہانی سنائی کچھ ایسے کہ لب خموش ہوئے اور آنکھ بھر آئی تلاش کرتی رہی میں بھی چار سو اس کو نگاہ وہ بھی مجھے ڈھونڈھتی نظر آئی بہت دنوں میں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2