چاند تاروں نے کوئی شے تو چھپائی ہوئی ہے

چاند تاروں نے کوئی شے تو چھپائی ہوئی ہے
ورنہ کیوں رات پریشانی میں آئی ہوئی ہے


اس میں تبدیلی مری آنکھوں کو منظور نہیں
وہ جو تصویر مرے دل نے بنائی ہوئی ہے


مرنے دیتی ہے نہ جینے کی اجازت ہے مجھے
ایک شے ایسی میری جاں میں سمائی ہوئی ہے


ہم بناتے ہیں کوئی راہ گزر روز نئی
روز دیوار زمانے نے اٹھائی ہوئی ہے


کوئی شکوہ ہی نہیں اور کسی سے مجھ کو
یہ مری جاں تو صباؔ خود کی ستائی ہوئی ہے