تھا خفا مجھ سے بد گمان بھی تھا

تھا خفا مجھ سے بد گمان بھی تھا
اور وہی مجھ پہ مہربان بھی تھا


جب ستاروں کی زد میں آئی میں
تب لگا سر پہ آسمان بھی تھا


پھول کتنے کھلے تھے دل میں مگر
اک وہیں زخم کا نشان بھی تھا


کس سے کرتی میں دھوپ کا شکوہ
میرا سورج ہی سائبان بھی تھا


ضبط احساس ہم بھی کر لیں گے
اس یقیں پر صباؔ گمان بھی تھا