کہیں سے آتی صدا ہے کوئی
کہیں سے آتی صدا ہے کوئی
صدا نہیں ہے دعا ہے کوئی
کہاں پتہ تھی یہ بات مجھ کو
کہ مجھ میں کب سے چھپا ہے کوئی
سمجھ رہے تھے جسے جزیرہ
سمندروں میں گھرا ہے کوئی
چمک رہا ہے جو چاند بن کے
یہیں سے اٹھ کر گیا ہے کوئی
ذرا سنبھل کر قدم بڑھانا
اسی سفر میں لٹا ہے کوئی
وفا بھی دے دی انا بھی دے دی
صباؔ سے پھر کیوں خفا ہے کوئی