روشنی میری ہوا چاہتی ہے
روشنی میری ہوا چاہتی ہے
بس وہ دروازہ کھلا چاہتی ہے
قتل ہونے سے بچا چاہتی ہے
میری تنہائی دعا چاہتی ہے
بیل ضدی ہے جنوں کی میری
وہ لپٹنے کو ہوا چاہتی ہے
گھر کا دروازہ کبھی کھلتا نہیں
پھر بھی دہلیز دیا چاہتی ہے
میری تخلیق خفا ہے مجھ سے
میری پہچان جدا چاہتی ہے
دل یہ چاہے کہ میں روٹھوں اس سے
روح کیوں ضبط انا چاہتی ہے
کاش گلشن نے یہ پوچھا ہوتا
کون سا پھول صباؔ چاہتی ہے