رشمی صبا کی غزل

    کسی کے نام کو لکھتے ہوئے مٹاتے ہوئے

    کسی کے نام کو لکھتے ہوئے مٹاتے ہوئے تمام رات کٹی خود کو آزماتے ہوئے کہا یہ رات نے مجھ سے مجھے سلاتے ہوئے تو تھک گئی ہے بہت حال دل سناتے ہوئے میں کیوں سمیٹ نہیں پاتی ہوں کبھی اس کو بکھر رہا ہے جو ہر پل مجھے سجاتے ہوئے یہ چاہتی تھی کہ میں طے کروں سفر اس کا جو تھک گیا ہے مرا حوصلہ ...

    مزید پڑھیے

    مدتوں خوب آزماتی ہے

    مدتوں خوب آزماتی ہے پھر محبت سمجھ میں آتی ہے روپ اپنا اجالنے کے لئے زندگی دھوپ میں نہاتی ہے سب چراغوں کو ڈس چکی آندھی ایک دن خود سے ہار جاتی ہے سارا عالم دہائی دیتا ہے رات جب داستاں سناتی ہے کوئی مایوسیوں کو سمجھائے چاہ خود راستہ بناتی ہے کوئی ان بن ہوئی ہے گلشن سے کیوں صباؔ ...

    مزید پڑھیے

    مجھ سے ہی کھویا ہے یقیں شاید

    مجھ سے ہی کھویا ہے یقیں شاید دیکھوں ہوگا یہیں کہیں شاید تھک چکی ہیں اداسیاں مجھ سے دستکیں اور دیں کہیں شاید کیا کبھی بے وفا وہ نکلے گا دل نے جھٹ سے کہا نہیں شاید وقت کمزور ہی کو چنتا ہے اور کمزور تھے ہمیں شاید اتنے تارے کہاں سے اگتے ہیں آسماں پر بھی ہے زمیں شاید

    مزید پڑھیے

    خزاں بلائے مگر روکے ہیں بہار مجھے

    خزاں بلائے مگر روکے ہیں بہار مجھے میں ٹھہری رت ہوں کبھی آ کے تو گزار مجھے میں عکس تھی تو تری دسترس سے باہر تھی ہوئی ہوں روپ تو حاصل ہوں اب نکھار مجھے میں ڈھل چکی ہوں کسی سانچے میں بہت پہلے نہ اور بننے کی کچھ چاک سے اتار مجھے نہ جانے کتنے نئے رنگ مجھ میں اگتے ہیں وہ ایک لمس بنا ...

    مزید پڑھیے

    لگانے لگتی ہے دنیا عجیب عجیب قیاس

    لگانے لگتی ہے دنیا عجیب عجیب قیاس تبھی تو اوڑھا ہوا ہے اداسیوں کا لباس ہزار بار ہی اچٹا ہے میرا دل اس سے ہزار بار ہی یہ دنیا مجھ کو آئی راس زمیں پہ رات بچھی ہے ادھر شکستہ امید فلک پہ چاند اگا ہے ادھر اداس اداس بڑھی ہوئی ہے صباؔ آج اس کی یاد کی لو چمک اٹھی ہے مرے دل میں پھر بجھی ...

    مزید پڑھیے

    فرشتے دھیان لگائے اترنے لگتے ہیں

    فرشتے دھیان لگائے اترنے لگتے ہیں جو ساتھ تم ہو تو لمحے سنورنے لگتے ہیں وہ ایک یاد کی دستک جو دل پہ ہوتی ہے مرے خزانے کے موتی بکھرنے لگتے ہیں اس اک نگاہ کی تاثیر یوں سمجھ لیجے ہم اپنے آپ سے ملنے میں ڈرنے لگتے ہیں یہ آئنے کے علاوہ صفت کسی میں نہیں سنورنے والے سراپا بکھرنے لگتے ...

    مزید پڑھیے

    وہ جو ہر وقت سوچتا ہے مجھے

    وہ جو ہر وقت سوچتا ہے مجھے خود سے بچھڑا ہوا ملا ہے مجھے ایک آہٹ سی آتی رہتی ہے کوئی تو ہے جو ڈھونڈھتا ہے مجھے اپنا آغاز ہو نہ ہو لیکن اپنے انجام کا پتہ ہے مجھے گہرے پانی کی اور بڑھتے ہی خود بہ خود دریا روکتا ہے مجھے حال دل جب سنانا چاہا تو اس نے ہنس کے کہا پتہ ہے مجھے خود پر آخر ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2