درد بیتاب ہے الفاظ میں ڈھلنے کے لئے
درد بیتاب ہے الفاظ میں ڈھلنے کے لئے
راستہ چاہیے سب کو ہی نکلنے کے لئے
ختم ہو جاتا ہے سب کچھ کبھی اک لمحے میں
اور اک لمحہ ہی کافی ہے سنبھلنے کے لئے
ایسی بارش کی زمیں غرق ہوئی جاتی ہے
ابر کچھ وقت تو دے دیتا سنبھلنے کے لئے
میں دیا ہوں میری فطرت ہے اجالا کرنا
وہ سمجھتے ہیں کہ مجبور ہوں جلنے کے لئے
رات کے ساتھ جلا کرتی ہوں لمحہ لمحہ
چاند کا نور صباؔ چہرے پہ ملنے کے لئے