Rasheed Ejaz

رشید اعجاز

رشید اعجاز کی نظم

    رخ بہ رخ

    سرخ منڈی ہرا تیل پیلی کھنک تین صفحوں کا اخبار ہے زندگی اشتہارات کی بھیڑ میں چاندنی اپنی پازیب کی جھنجھناہٹ پہ روئی ہوئی روشنی ایک اک لفظ بے رنگ کی پیکریت چھوانے پہ مامور ہے عکس جتنے بھی ننگ بصیرت ہیں سب صاف کرکے دکھانے پہ مجبور ہے کیوں دہائی نہ دوں اے شکست نظر آسماں لفظ ہے اور ...

    مزید پڑھیے

    تسلی

    راستے کے پیچ و خم دشمن سہی فاصلے ہیں منحصر رفتار پر کان مت دھرنا دل آزردہ کی سسکار پر کیا ہوا چلو جو چھلنی ہیں ابھی ہونٹ کیوں ہوں تشنگی کے اشتہار کیا ہوا سوچے ہوئے منظر جو ہاتھ آئے نہیں آنکھ سا دریا بنے کیوں ریگ زار ناز ہو تحصیل کا یا نارسائی کا ملال ہر تگ و دو ہے قوی کا اشتعال سوچ ...

    مزید پڑھیے

    اک مکالمہ

    آہ کو پوچھا کہا میری جناب عشق کو پوچھا کہا میرے حضور حسن کو پوچھا کہا پرتو مرا بے اعتنا و بے نیاز رنگ اندھوں کے لئے سربستہ راز میں نے پوچھا کیا ہے پھر سوز جگر کہہ دیا تاثیر کل آئینہ گر جب کریدا خلوت و جلوت کے کیا معنی ہوئے روشنی پھوٹی کہ جلوت میری بزم کائنات بابت خلوت نشان طور ...

    مزید پڑھیے

    یقیں

    جھماکہ نور کا ہوگا لہو کو اک نئی رنگت ملے گی پسینے کی جگہ موتی ڈھلیں گے جگہ فرماں رواؤں کی غلاموں کو ملے گی ابلتے چوک ہوں یا بند کوچے ہوا کی جانچ ہوگی کڑی دھوپوں کی شاخیں قطاریں چھلنیوں کی چھانٹ دیں گی مضر کرنوں کو ہوں گے قید خانے کھلی آنکھوں کو زہر اور زہر پیکر نہ دیں پائیں گے ...

    مزید پڑھیے

    سوچ بن

    میری مجروح خلوت دہائی پہ اترے بھی تو کس طرح زہر شر شربت خیر کے ذائقے میرے نطق و زباں کے لئے وقف ہیں صرف سود و زیاں کے لئے وقف ہیں میں تصور کا محتاج صورت گری سے بہلتا رہوں ذہن کے نیم اجالوں میں گرتا سنبھلتا رہوں حلقۂ روز و شب سے مچلتی ہوئی ساری چنگاریاں مجھ پہ برسا کریں بحر ادراک کے ...

    مزید پڑھیے

    امتیاز

    نور کی بے اعتنائی جس طرح تاریکیاں جس طرح بنیاد شر ہے خیر کی خاموشیاں چھاؤں جیسے دھوپ کی ہے بے بسی ہر سزا کا جس طرح رد عمل ہے سرکشی جیسے اک ڈالی کے ہیں دو پھول خوف و اعتقاد خود فریبی کی جڑوں کو گھاؤ پہنچاتا ہے جیسے اعتماد جس طرح پرچھائیں ٹھہرے جذب کی کم مائیگی دشمنی کا تخم جیسے ...

    مزید پڑھیے

    تضاد شام

    مجھے شام سے پہلے آفس کے بلڈاگ کو فائلیں سونپنی تھیں مرے ساتھیوں نے جو خاکے رچے تھے اپاہج کی صورت مرے سامنے تھے مری افسری میرے کیبن میں بھوکے ببر شیر سی ہو رہی تھی مرے ماتحت اپنے چہرے بنائے ہوئے بے زباں ہو رہے تھے اپنے تصور کی درگت پہ سر پیٹتا تھا اچانک وہ لڑکی جو پچھلے مہینے ...

    مزید پڑھیے

    احساس

    لفظ کچھ ہی سہی اک علامت ہے تفہیم کی فہم حس تحفظ کا اک آئینہ اور گل کاریٔ عکس کے واسطے روح کافی نہیں جسم بھی چاہیے پیکریت وہی ہے جو باندھے نظر جن کی ویرانیاں منتظر ہیں مری روشنی ایک پردہ ہے جن کے لئے خون کی چپچپاہٹ لئے ان زمینوں تلک میں نہ پہنچا اگر سب کی سب رائیگاں جائیں گی کس ...

    مزید پڑھیے

    گردش

    سراپا آگ کا مٹی کے پیکر کو گھلائے جا رہا ہے زمیں کے جسم کا سایہ خلاؤں سے پلٹ کر اسی کے اپنے آدھے جسم کو ہر لمحہ کالا کر رہا ہے یہی جادو مسلط ہے ازل سے کئی پگڈنڈیوں کا جال سا پھیلا ہوا ہے گزر گاہوں کے کچھ شفاف کچھ موہوم خاکے ہمیں گرم سفر رکھے ہوئے ہیں سراپا آگ کا

    مزید پڑھیے

    عوامی صبح

    عوامی صبح پھر آئی زمیں نے کر لیا رخ اپنا پھر سورج کے اس نقطے کی جانب جہاں یاران ہم مجلس نے امیدوں کی کرنوں کا سہانا روپ دیکھا تھا کئی صدیوں کی ظلمت کی تہوں سے کنواری دھوپ کا گھونگھٹ اٹھایا تھا قفس کی کھپچیوں پر لیٹ کر آزاد آنکھوں سے کئی سپنے بنے تھے جہاں سے اک نئے احساس کا ہالا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2