سوچ بن
میری مجروح خلوت
دہائی پہ اترے بھی تو کس طرح
زہر شر شربت خیر کے ذائقے
میرے نطق و زباں کے لئے وقف ہیں
صرف سود و زیاں کے لئے وقف ہیں
میں تصور کا محتاج
صورت گری سے بہلتا رہوں
ذہن کے نیم اجالوں میں
گرتا سنبھلتا رہوں
حلقۂ روز و شب سے مچلتی ہوئی
ساری چنگاریاں مجھ پہ برسا کریں
بحر ادراک کے سب کے سب جزر و مد
مجھ پہ ٹوٹا کریں
میں نگاہوں میں خار مغیلاں لئے
بس زمینوں زمینوں بھٹکتا رہوں
اپنے سائے کو ہلکا سا نقطہ کیے
انگنت نیم خوابیدہ آنکھوں کو تکتا رہوں
اپنی پہچان کے واسطے اپنی تعریف میں
صرف اتنا کہوں
میں اکائی گزیدہ سر انجمن
میرے چاروں طرف
بے اماں اک گگن
سوچ بن
سوچ بن سورج بن